کیا ایران واقعی سعودی عرب پر حملہ کرنے کی تیاری کر رہا ہے؟
سعودی عرب کے حکام کا کہنا ہے کہ ان کے پاس ایسی معلومات ہیں جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ ایران اپنے ملک اور اس کے پڑوسیوں کے خلاف فوجی کارروائی کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔

یکم نومبر بروز منگل وائٹ ہاؤس میں امریکی قومی سلامتی کونسل کے ترجمان نے کہا کہ امریکہ کو سعودی عرب کے خلاف ایران کی دھمکی پر تشویش ہے اور اگر ضرورت پڑی تو وہ جواب دینے سے پیچھے نہیں ہٹے گا۔
امریکی قومی سلامتی کونسل کے ترجمان نے کہا کہ ہمیں اس خطرے پر تشویش ہے اور فوجی اور انٹیلی جنس چینلز کے ذریعے سعودی عرب کے ساتھ مسلسل رابطے میں ہیں۔ انہوں نے کہا: "ہم اپنے اور خطے میں اپنے شراکت داروں کے مفادات کا دفاع کرنے میں ہچکچاہٹ محسوس نہیں کرتے۔"
اس سے پہلے وال سٹریٹ جرنل کی اشاعت نے امریکی اور سعودی حکام کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا تھا کہ سعودیہ نے اس ملک میں اہداف پر ایران کے آنے والے حملوں کے بارے میں انٹیلی جنس دستاویزات امریکی حکام کے ساتھ شیئر کی ہیں اور امریکی فوجی دستوں کے لیے خبرداری کی سطح بڑھا دی ہے۔
اس حوالے سے قطری نیٹ ورک الجزیرہ نے لکھا ہے کہ سعودیہ، امریکہ اور پڑوسی ممالک نے اپنی افواج کو مکمل الرٹ کر دیا ہے۔
علاوہ ازیں امریکی میڈیا نے اپنے ملک کے اعلیٰ ذرائع کے حوالے سے بتایا کہ ریاض اور واشنگٹن کے درمیان اطلاعات کا تبادلہ ہوا ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ایران سعودی عرب پر فوجی حملے کی منصوبہ بندی کر رہا ہے۔
دوسری جانب سعودی حکام کا کہنا ہے کہ ایران نہ صرف سعودی عرب پر حملے کا منصوبہ بنا رہا ہے بلکہ اربیل بھی آئی آر جی سی کے حملوں کا نشانہ بنے گا۔
جبکہ وال اسٹریٹ جرنل کا کہنا ہے کہ ایران کی اس کارروائی کا مقصد ملکی رائے عامہ اور عالمی برادری کو ایران میں داخلی مظاہروں پر توجہ مرکوز کرنے سے ہٹانا ہے جو کہ اب اپنے ساتویں ہفتے میں داخل ہو رہا ہے، تہران کا کہنا ہے کہ سعودیہ ایران کے معاملات میں مداخلت کے ساتھ ساتھ ایرانیوں میں اشتعال انگیزی پیدا کرنے کی کوشش کر رہا ہے اور اندرونی ٹی وی چینلز بشمول "ایران انٹرنیشنل" ٹی وی چینل اور سعودی عرب کے ولی عہد کی الیکٹرانک فوج کے ذریعے، ایرانی حکومت کے حقائق کو مسخ کرکے ایران میں اپنے مطلوبہ اہداف کا تعاقب کرتے ہیں۔
یہ سعودی چینلز ایران میں خواتین کے حقوق کی بات اس حال میں کر رہے ہیں جب سعودی خواتین اور عوام ووٹ ڈالنے جیسے ضروری ترین حقوق سے محروم ہیں۔
نیز ان بیانات میں تہران نے سعودی ولی عہد کے الفاظ کا حوالہ دیا ہے، جنہوں نے 2016 میں ایک سعودی شیعہ عالم شیخ نمر باقر النمر کی پھانسی کے خلاف احتجاج میں جب تہران اور مشہد میں سعودی سفارت خانے اور قونصل خانے پر حملہ بھی کیا گیا تھا، ولی عہد نے کہا تھا: ہم جنگ کو تہران اور ایران کی گلیوں میں لے جا رہے ہیں۔
ایران کے خطے میں مقامات پر حملوں کے ارادے کے بارے میں سعودی عرب کی وارننگ اور اس کے بعد امریکی قومی سلامتی کونسل کے ترجمان کا سعودی عرب کی حمایت میں موقف سامنے آتا ہے جب کہ ایران پہلے ہی ستمبر میں درجنوں بیلسٹک میزائلوں اور دھماکہ خیز ڈرونز کے ساتھ عراقی کردستان کے مقامات پر حملہ کر چکا ہے۔
تہران نے عراقی کردستان میں مقیم کرد جماعتوں پر ایران میں بدامنی کی قیادت کرنے کا الزام عائد کیا ہے۔ ایرانی حکام نے سعودی عرب، امریکہ اور اسرائیل پر بھی عوامی مظاہروں کی قیادت کرنے کا الزام لگایا ہے۔
قبل ازیں آئی آر جی سی کے کمانڈر انچیف حسین سلامی نے احتجاجی مظاہروں کو بیرون ملک سرگرم فارسی چینلز کا نتیجہ قرار دیتے ہوئے سعودیہ کے لیے ایک لکیر کھینچتے ہوئے کہا تھا: میں سعودی حکومت کو خبردار کرتا ہوں کہ اپنے رویے کو تبدیل کریں اور اپنے ان پالتو چینلز سے ہوشیار رہیں، ورنہ اس کا دھواں آپ کی آنکھوں میں جائے گا۔