جنرل سلیمانی کا قتل عراق میں امریکہ پر کیسے بوجھ بن گیا؟
بین الاقوامی تعلقات کے ماہرین کا خیال ہے کہ عراق میں امریکہ کے ہاتھوں جنرل قاسم سلیمانی کے قتل نے اس ملک اور خطے میں امریکہ کو فائدہ دینے سے زیادہ خطرے میں ڈال دیا ہے۔
Table of Contents (Show / Hide)
جنوری 2020 میں، جنرل "قاسم سلیمانی" کے قتل اور "عین الاسد" میں امریکی فوجی اڈے پر ایران کے میزائل حملے اور سو سے زائد امریکی فوجیوں کے زخمی ہونے کے بعد، " مائیک پومپیو، اس وقت کے وزیر خارجہ امریکہ نے "Revival of deterrence" کے عنوان سے ایک تقریر کی۔
مائیک پومپیو نے اپنی تقریر میں دعویٰ کیا: سلیمانی کے قتل نے ایک بار پھر ایران کے خلاف امریکہ کی مزاحمت کو متوازن کر دیا۔ تاہم عراق میں امریکی فوجیوں کے خلاف حملوں میں اضافے سے یہ بات واضح ہوگئی کہ اس وقت کے امریکی وزیر خارجہ کے دعوے کی کوئی صداقت نہیں۔
بہت سے لوگ اب یہ سمجھ چکے ہیں کہ سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے اختیارات کے ناجائز استعمال اور جنرل قاسم سلیمانی کے قتل کا حکم جاری کرنے سے امریکہ کو ایک وسیع پیمانے پر بحران کا سامنا ہے جس کے نتائج موجودہ حالات میں بھی امریکہ کو بھگتنا پڑ رہے ہیں۔
ایران نے نہ صرف جنرل قاسم سلیمانی کے قتل کا جواب عین الاسد کے فوجی اڈے پر ایک بڑے میزائل حملے کے ذریعے دیا بلکہ اس نے اپنی بنیادی حکمت عملی کو بالخصوص طور پر عراق سے اور بالعموم طور پر خطے سے امریکی فوجیوں کے مکمل انخلا پر مرکوز رکھا۔
اس کے علاوہ جنرل قاسم سلیمانی کے قتل نے نہ صرف عراق کے اندرونی تنازعات کو ہوا دی بلکہ اس میں مزید شدت پیدا کر دی۔ یہ اس حقیقت کے باوجود ہے کہ قاسم سلیمانی اور ابو مہدی المہندس کے دور میں ان دونوں نے عراق میں ملیشیا گروپوں کو منظم اور کنٹرول کرنے کے لیے اپنی صلاحیتیں بروئے کار لائیں اور اس طرح اس ملک میں کشیدگی اور چیلنجز کو بڑھنے سے روکا، لیکن اس کے بعد ان دونوں کمانڈروں کے قتل کی امریکی کارروائی کے بعد کچھ عراقی ملیشیا گروپوں نے میدان خالی دیکھا اور من مانی طور پر ایسی کارروائیاں شروع کر دیں جس سے عراق کے استحکام اور امریکی فوجیوں کی سلامتی دونوں کو خطرہ لاحق ہو گیا ہے۔
یہ ماننا پڑے گا کہ جنرل قاسم سلیمانی اور ابو مہدی المہندس کے قتل نے عراق، خطے اور دنیا میں امریکی مفادات کو تقویت دینے کے بجائے اس ملک کی حیثیت کو مزید خطرے میں ڈال دیا ہے۔ موجودہ حالات میں امریکہ اپنی طاقت کا ایک بڑا حصہ عراق میں اپنے فوجی اڈوں کی حفاظت اور اس ملک میں اپنے فوجیوں کی جانوں کے تحفظ پر مرکوز ہے۔ ان کے علاوہ میکرو سطح پر عراق میں سیکورٹی چیلنجز اور تناؤ کی شدت نے بھی امریکہ کے مفادات کو خطرے میں ڈال دیا ہے۔
اس کے علاوہ، جنرل قاسم سلیمانی کے قتل نے ایران کو اپنے جوہری پروگرام کو آگے بڑھانے میں مزید پرعزم بنا دیا ہے۔ جنرل سلیمانی کے قتل کے بعد اسلامی جمہوریہ ایران JCPOA معاہدے کی پابندیوں سے دستبردار ہو گیا اور یقیناً یہ JCPOA سے امریکہ کے انخلاء کا ردعمل بھی تھا۔اس نے اپنے بنیادی پروگرام کی تشکیل اور اس پر عمل درآمد کا اعلان کیا۔
جنرل سلیمانی اور ابو مہدی المہندس کا عراقی ملیشیا گروپوں میں کافی اثر و رسوخ تھا اور اس کی وجہ سے عراق میں امن قائم ہوا، ایسا امن جس سے نہ صرف عراقی بلکہ امریکی بھی مستفید ہوئے، اب امریکیوں کے ساتھ عسکریت پسند گروپس موجود ہیں۔ جن میں سے کچھ آزادانہ طور پر کام کرتے ہیں اور امریکی قافلوں اور امریکی فوجیوں کو نشانہ بنانے میں ہچکچاتے نہیں ہیں۔
جنرل سلیمانی اور ابو مہدی المہندس کے قتل کے بعد امریکیوں کو عراق میں ایک اور نئے چیلنج کا سامنا کرنا پڑا اور وہ تھا اپنے ملک میں امریکی فوجی موجودگی کے جاری رہنے کے خلاف عوامی احتجاج، اس کے علاوہ عراقی پارلیمنٹ نے اس کی منظوری بھی دی۔
عراق سے امریکی فوجیوں کے انخلا کا قانون اگرچہ فی الحال متنازعہ ہے اور ابھی تک اس پر عمل درآمد نہیں ہوا ہے لیکن بلاشبہ اس پر بہت جلد عمل درآمد ہو جائے گا اور اس کا ذکر امریکہ کے لیے ایک نئے چیلنج کے طور پر کیا جانا چاہیے جو کہ اس اضافے کی حوصلہ افزائی کرتا ہے۔