عالم اسلام کے اتحاد و یکجہتی میں حج کا کردار
کیا تعجب کی بات ہے کہ عالم اسلام کے دانشور حتیٰ کہ حج کی تقریب میں شرکت کرنے والے بھی اسلام کے اتحاد اور عالم اسلام کے مسائل کے حل کے لیے سائنسی، فکری اور ثقافتی برادریوں کی تشکیل میں پہل نہیں کرتے؟!
Table of Contents (Show / Hide)
![عالم اسلام کے اتحاد و یکجہتی میں حج کا کردار](https://cdn.gtn24.com/files/urdu/posts/2023-06/1281146-745592483.webp)
اسلام کے اتحاد سے قبل انسانی اتحاد کی ضرورت
انسان ایک سماجی مخلوق ہے اس لیے اپنی روحانی اور مادی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے اسے ایک معاشرے میں اور لوگوں کے ساتھ رہنا پڑتا ہے۔ دوسری طرف اپنے مادی اور روحانی سرمائے کی حفاظت اور سلامتی کی ضرورت نے اسے اپنے ساتھیوں کے ساتھ اتحاد پیدا کرنے والے عوامل تلاش کرنے پر مجبور کر دیا ہے، اسی وجہ سے بہت پہلے سے ہی مختلف انسانوں کی مشترکات اور اتحاد کے حصول نے انہیں اپنے مقاصد کے حصول کے لیے نسلی، لسانی، علاقائی، قومی اور جغرافیائی وحدت اور اتحاد کی جانب راغب کیا ہے۔ لیکن ان میں سے بہت سی چیزیں، کیونکہ ان کی کوئی مضبوط روحانی بنیاد نہیں، اس خاطر وہی اندھے، فرقہ وارانہ اور نسلی تعصبات میں بدل گئے ہیں اور انسانی معاشرے میں نفاق کی وجہ بن گئے ہیں۔
لیکن اسلام جو ایک عالمی دین اور مذہب ہے، اس نے انسان کی تعریف و توقیر کی ہے اور روحانی اور مذہبی محوروں اور ضمیری عقائد پر زور دیا ہے اور نسلی، قومی اور جغرافیائی معیارات اور محرکات کو چھوٹا اور حقیر قرار دیا ہے۔ اسلام کے اتحاد کو اس نظر سے دیکھا جائے کہ اسلام توحید پرستوں کے ساتھ اتحاد کو پرامن بقائے باہمی کے لیے ضروری اور لازمی سمجھتا ہے اور دنیا کے محروموں اور مظلوموں کے دفاع کو رفاقت اور تعاون کا ایک اور محور سمجھتا ہے اور مسلمانوں اور اسلام کے اتحاد و اتفاق کو مضبوط اور طاقتور بنانے کے لیے اسلامی معاشرے میں بطور مذہبی فریضہ سمجھتا ہے۔
ان مقاصد پر نہ صرف خدا کی کتاب اور سنت نبوی میں واضح طور پر تاکید کی گئی ہے، بلکہ یہ عظیم مسلم مصلحین کی عظیم مقاصد اور نظریات میں سے ایک رہا ہے، خاص طور پر گزشتہ دو صدیوں میں۔
درحقیقت، دنیا بھر کے مسلمانوں کے عوام کلمہ حق کو بچانے، ترقی کرنے اور سربلند کرنے کے لیے اکٹھے کیوں نہیں ہوتے؟ اگر دینی جوش و جذبے کی کمی کی وجہ سے وہ ایسا نہیں کرتے تو کم از کم انہیں ملکی اور قومی جذبے کی بنیاد پر غیر ملکی خطرات اور دشمن عناصر کے خلاف متحد ہو جانا چاہیے جو مسلمانوں کو تباہ کرنا چاہتے ہیں اور ہر روز اس سلسلے میں کوئی نیا منصوبہ اور نئی سازش تیار کرنے میں لگے ہیں، مسلمانوں کو چاہیے کہ مشترکہ نظریات پر زور دیں اور تفرقہ انگیز مسائل سے پرہیز کریں۔
عالم اسلام کے اتحاد کے حوالے سے حج کے ایام اس وسیع الٰہی نعمت سے فائدہ اٹھانے کا بہترین موقع ہیں۔ عام طور پر، حج قانون سازی کی ایک اہم حکمت مختلف نسلوں، فرقوں اور قومیتوں کے درمیان اسلام کے اتحاد پیدا کرنا ہے۔
اتحاد کے حوالے سے نبی کریم کی سیرت
خاتم الانبیاء حضرت محمد (ص) نے اس کعبہ کی بنیاد وحدت کی بنیاد پر رکھی کیونکہ ہم جانتے ہیں کہ خانہ کعبہ کو خاتم الانبیاء (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے مضبوط اور مبارک ہاتھوں نے 15ویں مرتبہ مرکز بنانے کے لیے دوبارہ تعمیر کیا تھا۔ جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم دیوارِ بیت کی تعمیر میں مصروف تھے تو عرب قبائل کے درمیان ’’حجر الاسود‘‘ کو دیوار کی طرف منتقل کرنے پر جھگڑا ہوا۔
ان سب نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اس مسئلے کے حل کے لیے ایک عقلمند اور غیر جانبدار ثالث کے طور پر قبول کیا۔
حضرت نے حکم دیا کہ ایک چادر بچھا کر اس میں حجر اسود ڈال دیا جائے اور ہر قبیلے نے اس کپڑے کا ایک ایک گوشہ لے کر دیوار کے کنارے پہنچا دیا۔ پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے مبارک ہاتھوں سے اس پتھر کو اس کی موجودہ حالت میں نصب کیا۔ اس منصوبے کے ساتھ، رسول خدا نے نسلی، قبائلی اور قومی اختلافات کو ابھرنے سے روکا جو جاہلیت کے تعصبات کی وجہ سے تھے۔
بظاہر چھوٹا سا مسئلہ بڑے اختلافات کا سبب بن سکتا ہے اور ایک گروہ کے لیے فخر اور سب کے لیے جھگڑے کا سبب بن سکتا ہے۔ ابن ابرین، بیت اللہ الحرام کی بنیاد اسلام کے اتحاد اور وفاداری پر ہے۔ یہ کعبہ خدا کا گھر ہے، یہ تمام لوگوں کے لیے ہے، اسے کسی گروہ یا فرقے کے لیے مخصوص نہیں ہونا چاہیے، یہ “بیت عتیق” ہے۔ یہ ہر چیز سے پاک ہے، تمام جماعتی، نسلی، قبائلی اور پیشہ ورانہ تسلط سے۔
عالم اسلام کے اتحاد کی ضرورت اور اہمیت
کیا تعجب کی بات ہے کہ عالم اسلام کے دانشور حتیٰ کہ حج کی تقریب میں شرکت کرنے والے بھی عالم اسلام کے مسائل کے حل کے لیے سائنسی، فکری اور ثقافتی برادریوں کی تشکیل میں پہل نہیں کرتے؟! بلاشبہ اس سلسلے میں وقتاً فوقتاً محدود کانفرنسیں بنتی رہتی ہیں لیکن حج میں جو بہت سے امکانات اور برکتیں پوشیدہ ہیں ان کے مقابلے میں یہ بہت ہی معمولی ہے۔
عبدالرحمن کواکبی نے “ام القرٰی” کے نام سے ایک کتاب لکھی ہے اور اس میں انہوں نے مکہ میں مسلم دانشوروں کی ایک بڑی کانگریس کی تصویر کشی کی ہے، جو نسل، زبان، قومیت اور مذہب میں تمام تر تنوع اور فرق کے باوجود مشترکہ نظریات کی حامل ہے یعنی اں کے کچھ درد اور مقاصد مشترک ہین۔
یہ کتاب حقیقت پر مبنی ہو یا کواکبی کے تخیل و خیال کی پیداوار ہو لیکن اس کا ایک ہی نتیجہ نکلتا ہے اور وہ ہے عالم اسلام کے مسائل اور مخمصوں کے حل کے لیے حج کی تقریب کی قابلیت اور امکانات کا استعمال۔ خاص طور پر آج “گلوبلائزیشن” کے مسئلے سے مسلم اقوام کی ثقافتوں، عقائد اور شناخت کو جو خطرہ لاحق ہے۔
گلوبلائزیشن، خواہ صنعتی دنیا کا عمل ہو، الیکٹرانک انقلاب ہو، اور معلومات کا دھماکا یعنی Information explosion ہو، یا یہ عظیم اور بڑی طاقتوں کا کوئی منصوبہ ہو، یہ ایک ایسی حقیقت ہے جس سے گریز نہیں کیا جا سکتا۔ ہم امت مسلمہ اس کے برے نتائج سے صرف اپنا دامن ہی بچا سکتے ہیں جو صرف تدبیر اور وحدت کے ساتھ ممکن ہے۔