بلومبرگ خبر رساں ایجنسی کے مطابق، انہوں نے اعلان کیا: تیل کی پیداوار میں کمی کے دو نتائج ہوں گے، اقتصادی طور پر طویل عرصے تک مہنگائی بلند رہے گی اور یہ مسئلہ امریکی مرکزی بینک یا کسی دوسرے بڑے مرکزی بینک کو سخت مالیاتی پالیسی اپنانے پر مجبور کر دے گا۔ اس کے بعد یہ عالمی کساد بازاری کے امکانات کو بڑھاتا ہے۔
سیاسی طور پر، یہ کارروائی روس کے صدر ولادیمیر پیوٹن کی حمایت کی ایک شکل ہے، اور یہ ظاہر کرتی ہے کہ ریاض روسی کیمپ میں ہے اور واشنگٹن کی سرعام توہین کرنے کے لیے تیار ہے۔ اس سے مشرق وسطیٰ اور افریقہ کے دوسرے لوگ روس کے ساتھ زیادہ آرام دہ محسوس کرتے ہیں۔
مائیکل میک فال، جو 2012 سے 2014 تک # روس میں امریکی سفیر رہے اور اسٹینفورڈ یونیورسٹی اور واشنگٹن پوسٹ اخبار میں بھی کام کرتے رہے، ٹویٹر پر ایک پیغام میں لکھا: "یہ مایوس کن ہے کہ سعودی امریکہ کے خلاف پوٹن کے ساتھ کھڑے ہیں۔"
انہوں نے مزید کہا: یقیناً سعودی عرب کو فائدہ ہوگا اور روس کو بھی فائدہ ہوگا جبکہ باقی دنیا کو نقصان ہوگا۔
میک فال نے تاکید کی: سعودی عرب کے بارے میں امریکی پالیسی میں حقیقت پسندی کا وقت آگیا ہے۔
انہوں نے کہا: ہمارے سعودی دوست ہماری سلامتی اور اقتصادی اقدار یا مفادات میں شریک نہیں ہیں، اس لیے آئیے اس مسئلے سے نمٹیں اور یہ بہانہ نہ بنائیں کہ اس میں کوئی خاص بات ہے۔