مصر الیوم کے مطابق متحدہ عرب امارات کے قومی دن کے موقع پر "مذہبی اسرائیلی پارٹی" کے رہنما بنغفير کو مدعو کیا گیا جو کہ ایک مکمل انتہا پسند جماعت ہے۔
اس سال 2 دسمبر کی تاریخ کو وہاں اماراتی سفیر نے ان کا استقبال کیا، پارلیمانی انتخابات میں کامیابی کے بعد بن غفیر کا یہ پہلا دورہ تھا۔
بن غفیر کے دفتر کے سربراہ شانمیل ڈورفمین کے بیانات کے مطابق اس ملاقات میں بن غفیر نے کہا کہ وہ مغربی کنارے اور یروشلم کا انتظام خصوصی طور پر اسرائیل کے ہاتھ میں رکھنا چاہتے ہیں۔
انہوں نے اماراتی سفیر کے سامنے اپنا موقف واضح طور پر بیان کرتے ہوئے مزید کہا کہ وہ اگلی حکومت میں اپنی شرکت کے ذریعے فلسطینی اتھارٹی کو تحلیل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
انہوں نے کہا: یہ معاملہ اسرائیلی حکومت کے ہاتھ میں ہے اور اسرائیل جب خود چاہے گا، فلسطینیوں کی رائے کو سنے گا۔
وہاں جس چیز کی توقع نہیں تھی وہ میٹنگ میں اماراتی سفیر کا موقف تھا۔
انہوں نے کہا: "مغربی کنارے اور یروشلم کی سیکیورٹی فائل اسرائیلی اتھارٹی کے ہاتھ میں ہونی چاہیے۔
انہوں نے تصدیق کی کہ اسرائیل عربوں اور یہودیوں کے معاملات کو سنبھالنا بہتر جانتا ہے، اور ہم اس معاملے میں مداخلت نہیں کرنا چاہتے۔"
یہ بات قابل ذکر ہے کہ بن غفیر مقبوضہ علاقوں میں عربوں کے شدید ترین دشمنوں میں سے ایک ہے۔ اور ہمیشہ انہیں دھمکانے کی کوشش کرتا ہے اور انہیں مقبوضہ علاقوں سے بے دخل کرنے، ان کی شہریت چھیننے، یا کام سے نکالنے کی دھمکی دیتا ہے۔
اس نے بارہا کہا ہے کہ وہ یروشلم کو سبوتاژ اور منہدم کرنا چاہتا ہے اور ان انتخابات میں اس نے نیتن یاہو، لیکود اور دائیں بازو کی جماعتوں کے ساتھ اتحاد کیا۔
ذرائع سے پتہ چلتا ہے کہ وہ نئی ریاست میں سیکورٹی کے وزیر کی ذمہ داریاں سنبھالیں گے اور ذاتی طور پر مغربی کنارے کی فائل کی نگرانی کریں گے۔
لیپڈ کے بیانات کے مطابق نیتن یاہو کی نئی ریاست اسرائیل کی تاریخ کی سب سے شدید ریاست ہوگی۔
بن غفیر کی تقرری کے اسرائیلی فیصلے پر امریکہ اور یورپی یونین دونوں نے اعتراض کیا لیکن کوئی فائدہ نہیں ہوا۔