مغربیوں کو یوکرین میں کرائے کی فوج بنانے کی اشد ضرورت ہے کیونکہ زیلنسکی فوج کی بنیاد ٹوٹ چکی ہے اور ان میں جنگ جاری رکھنے کے لیے کوئی مرکزی کمان یا ہم آہنگی نظر نہیں آ رہی بلکہ وہ شہروں کے مرکز میں ہی چھپ کر گاہے بگاہے روس فوج کو اچانک سے حملے کا نشانہ بنا کر سرپرائزڈ کر رہے ہیں۔ جبکہ روس نے یوکرین میں مغربی اتحاد کے خلاف بھی کارروائی شروع کر دی ہے۔ روسی صدر نے قومی سلامتی کونسل کے اجلاس میں کہا ہے: "اگر آپ ایسے لوگوں کو دیکھتے ہیں جو ڈونباس کے لوگوں کی مدد کے لیے رضاکارانہ طور پر آنا چاہتے ہیں، نہ کہ صرف 'پیسے' کے لیے، تو ٹھیک ہے، آپ کو ان کی مدد کرنی ہوگی تا کہ وہ جنگی میدان میں روسی فوج کی مدد کو پہنچے"! ان تبصروں کے بعد روس کے سرکاری ٹیلی ویژن نے شام سے ایک ویڈیو نشر کی جس میں فوج اور مختلف فورسز کے سینکڑوں سابق ارکان یوکرین بھیجے گئے جو پہلے شامی حکومت کے مخالف تھے اور روس کی پانچویں آرمی کور میں منظم تھے۔ روسی وزیر دفاع نے کہا کہ اس وقت 16000 رضاکاروں نے، جن میں سے زیادہ تر کا تعلق مشرق وسطیٰ سے ہے، نے ڈان باس فورسز کی مدد کے لیے اپنی تیاری کا اعلان کیا ہے۔ سرگئی شوئیگو نے یوکرین میں لوٹے گئے مغربی ہتھیاروں کی خود ساختہ جمہوریہ لوہانسک اور ڈونیٹسک کو منتقل کرنے کی تجویز بھی پیش کی جس کا پوتن نے خیر مقدم کیا۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ مغرب روسی سرزمین کے قریب اپنی فوجی موجودگی کو مضبوط کر رہا ہے۔ مغرب اور مشرق کی دوسری جنگ عظیم ایک نئے دور میں داخل ہوتی دکھائی دے رہی ہے۔ دنیا کے دیگر حصوں میں، یوکرین میں لڑنے کے لیے رضاکارانہ اور حتیٰ کہ جنگجوؤں کی بھرتی کو بہت سنجیدگی سے لیا جا رہا ہے۔ جلد ہی آپ دنیا کے تمام 190 ممالک کے لوگوں کو دیکھ سکتے ہیں جو محاذِ شام کی طرح ایک دوسرے کے خلاف لڑ رہے ہیں۔ شام میں، مثال کے طور پر، مصریوں کے ایک گروپ کو عرب قوم پرستوں کی ایک بٹالین میں منظم کیا گیا، سینکڑوں مصری اخوان المسلمین کو ایک جنگجو قوت کے طور پر داعش اور القاعدہ کی تنظیم جبہۃ النصرہ کے حوالے کر دیا گیا۔ شام کے بعد ایک جنگی علاقے میں افواج کو منظم کرنے کا یہ انداز اور ان کی موجودگی کا یہ طریقہ، بہت سنجیدگی سے ہو رہا ہے۔ یوکرین میں، بلاشبہ، شام کے برعکس، امریکی اور برطانوی سیکورٹی ادارے باقاعدہ طور پر یوکرین میں جنگ کے لیے افواج کو منظم اور فراہم کر رہے ہیں۔ موجودہ عالمی جنگ کو جنگوں کی ایک نئی مثال کے طور پر سمجھا جانا چاہیے جس میں ہر فریق ایک نظریے اور سوچ کی بنیاد پر دوسرے فریق کے خلاف لڑ رہا ہے اور یہ واضح ہے کہ ان کی موجودگی اور شراکت کے نتائج دوسرے ممالک تک بھی گہرے ہوں گے۔ اس کے باوجود، جو لوگ یوکرین کی طرف سے لڑتے ہیں، ان کا انجام زیادہ تر تلخ ہوگا، جیسا کہ ان دسیوں ہزار لوگوں کی طرح جو داعش اور جبہۃ النصرہ کے لیے لڑے تھے، اور آج ان کی بیویوں اور بچوں یا ان کے والدین کا کوئی سہارا نہیں ہے، جبکہ شامی حکومت تمام ان لوگوں کو سہارا فراہم کرنے کی کوشش کر رہی ہے جو ملک کے لیے میدان جنگ میں اترے، چاہے وہ جان کی بازی ہار گئے ہوں یا غازی بن گئے ہوں۔ یوکرین کی حکومت سے اس طرح کی توقع کا امکان نہیں ہے، کیونکہ یوکرین کی فوج اور حکومت ٹوٹ چکی ہے۔ مصنف اور تجزیہ کار: ایڈورڈ ولسن