اہلکار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ اس کے سفارت کار، پرانی حکومت سے تعلق رکھنے والے، اب ملک بدر ہونے سے پہلے امریکی ویزوں کے لیے درخواست دینے کے لیے ایک ماہ کا وقت رکھتے ہیں۔
نیویارک ٹائمز کے مطابق، اس وقت تقریباً 100 سفارت کار واشنگٹن میں سفارت خانے یا لاس اینجلس اور نیویارک میں افغان قونصل خانوں میں کام کر رہے ہیں۔
امریکی اہلکار نے کہا کہ تقریباً ایک چوتھائی نے ابھی تک امریکہ میں رہنے کے لیے درخواست دینا ہے۔
اہلکار نے اے ایف پی کو بتایا "افغان سفارت خانہ اور قونصل خانے شدید مالی دباؤ کا شکار ہیں۔ ان کے بینک اکاؤنٹس ان کے لیے دستیاب نہیں ہیں۔"
انہوں نے مزید کہا:, "ہمارا اس وقت طالبان کی طرف سے تعینات سفارت کاروں کو تسلیم کرنے کا کوئی ارادہ نہیں ہے۔" یہ گروپ اپنی موجودہ سفارتی حیثیت 30 دن تک برقرار رکھے گا۔
اہلکار نے کہا کہ محکمہ خارجہ نے اب افغان سفارت خانے کے تعاون سے انتظامات کیے ہیں تاکہ آپریشنز کو منظم طریقے سے بند کرنے میں سہولت فراہم کی جا سکے جس سے امریکہ میں تمام سفارتی مشن کی املاک کی حفاظت کی جائے جب تک کہ آپریشن دوبارہ شروع نہیں ہو جاتے۔"
واضح رہے کہ گزشتہ اگست میں کابل میں اقتدار پر قبضہ کرنے والے طالبان کو عالمی برادری تسلیم نہیں کرتی اور انہوں نے پچھلی حکومت کے تحت قائم کیے گئے سفارتی مشنز پر مکمل کنٹرول حاصل نہیں کیا۔
یاد رہے کہ بہت سے سفارت کار پرانی مغرب نواز حکومت کے وفادار ہیں۔
امریکی اہلکار نے کہا کہ اس دوران، افغان سفارت کاروں کو امریکی حکومت نے ان کے کھاتوں کو منجمد کرنے کے بعد اب کئی لاکھ ڈالر کی فنڈنگ تک رسائی نہیں ہے۔