جرم کہیں بھی ہو برا ہے، اور مجرم جو بھی ہو اس کی مذمّت ہونی چاہئے
جنگ کہیں بھی ہو بُری ہے۔ اس میں ہونے والا انسانی جانوں کا ضیاع کم ہو یا زیادہ افسوسناک ہے اور اس جنگ کے نتیجے میں بے گھر ہونے والا ہر فرد ہی ہمدردی کا مستحق ہے۔
Table of Contents (Show / Hide)

اقوام متحدہ کے ادارہ برائے پناہ گزین (یو این ایچ سی آر) کے سربراہ فیلیپو گرانڈی نے بدھ کو اپنے دورہ افغانستان میں کہا کہ روس کے یوکرین پر حملے کی وجہ سے کہیں دنیا افغانستان کو بھول نہ جائے اور یہ کہ اس کی انسانی امداد نظر انداز کرنا خطرناک ہو گا۔
لیکن روس کی جانب سے یورپ کے ملک یوکرین ہر حملے کے بعد بہت سے لوگوں کا خیال ہے مغربی میڈیا کی اس تنازع کی کوریج میں ’تعصب‘ اور ’نسل پرستی‘ کا عنصر کافی واضح ہے۔
جہاں تجزیہ کاروں ، رپوٹررز اور پروگرام کے میزبانوں کی جانب سے ’یورپ‘ کی جنگ کو ’زیادہ‘ بُرا قرار دیا جا رہا ہے اور اس میں ہونے والی ہلاکتوں کو دنیا کے باقی ممالک میں ہونے والے ہلاکتوں سے ’زیادہ‘ افسوسناک بتایا جارہا ہے وہیں اس تنازع کے باعث بے گھر ہونے والے افراد اور پناہ گزینوں کو ایشیائی ممالک کے پناہ گزینوں سے ’بہتر‘ بتایا جارہا ہے۔
لہذا آج کی جنگ میڈیا کی جنگ ہے۔ جس ملک کو میڈیا مظلوم کہے، اسے عوام مظلوم کے طور پر سمجھتے ہیں، اور جسے میڈیا کوریج نہ دے، اسے مظلوم ہوتے ہوئے بھی بھول دیا جاتا ہے۔
حالانکہ اعداد و شمار کے مطابق افغانستان میں اس ملک کے خلاف امریکی پابندیوں کی وجہ سے تیرہ ہزار (13,000) افغانی بچے مر چکے ہیں! جیسے یمن میں امریکی جرائم کی سنسر شپ ہو رہی ہے، لیکن ان امریکی جرائم کی خبر کسی مغربی میڈیا میں شائع نہیں ہوتی، عالمی میڈیا کے لئے یہ بات مالی نقصان کی وجہ بنتی ہے، لہذا یہ بات نہیں اٹھاتا اسی لئے کوئی امریکہ کو قصوروار قرار نہیں دیتا۔
ایسا لگتا ہے جیسے اب دنیا میں صرف ایک ہی مجرم اور ظلم وبربریت کا سرغنہ ہے، اور وہ ہے "پیوٹن" اور دنیا کا واحد مظلوم "یوکرین" ہے۔
لوگ کتنی جلدی یہ بھول چکے کہ آج سے 19 سال پہلے امریکہ نے عراق پر قبضہ کر کے آج کی مشرق وسطیٰ کی صورت حال کو جنم دیا۔ جس کا نتیجہ یہ ہے کہ ایک ملین سے زیادہ ہلاک ہوگئے، لاکھوں بے گھر ہوچکے۔
اس صدی کے سب سے تباہ کن جرائم، کہ جن کا مجرم امریکہ ہے کو اتنی آسانی سے بھلا دیا گیا۔ کیوں؟ کیونکہ میڈیا یہی چاہتا ہے۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی کی جاری کردہ ویڈیو میں گرانڈی کا کہنا تھا کہ اس وقت تمام دنیا کی توجہ یوکرین پر مرکوز ہے۔
اقوام متحدہ کے ادارہ برائے پناہ گزین (یو این ایچ سی آر) کے سربراہ فیلیپو گرانڈی نے افغانستان کی موجودہ صورت حال کو نظر انداز نہ کرنے کے حوالے سے اپنی گفتگو میں آگے کہا کہ ’میرا یہاں آنا ایک پیغام ہے کہ دیگر صورت حال کو نہ بھولیں جہاں توجہ اور وسائل درکار ہیں۔ افغانستان بھی ان میں سے ایک ہے۔‘
گرانڈی نے موجودہ افغان حکام سے متعلق بات کرتے ہوئے بتایا: ’یہاں بہت سے گھمبیر مسائل ہیں جیسا کہ ہم سب کو علم ہے کہ خواتین، اقلیتوں اور تعلیم کے حقوق کو لے کر بہت فکر مندی ہے۔ ان تمام پر کھل کر گفتگو ہو سکتی ہے۔‘
موجودہ افغان حکام کی ان مسائل پر معاملہ فہمی کے حوالے سے یو ان کا کہنا تھا کہ ’میرے خیال میں موجودہ حکام کو اس بات کی آگہی ہے کہ بین الاقوامی برادری خصوصاً عطیہ دینے والوں کو ان میدانوں میں بہتری کی توقع ہے۔‘
اقوام متحدہ اور دیگر عالمی امدادی ایجینسیوں کے مطابق رواں موسم سرما میں تین کروڑ 80 لاکھ آبادی والے افغانستان میں آدھے لوگ بھوک کا شکار تھے۔
جنوری میں اقوام متحدہ نے کسی ایک ملک کے لیے اپنی تاریخ کی سب سے بڑی پانچ ارب ڈالرز امداد کی اپیل کی تھی تاکہ ملک میں انسانی المیے کو ٹالا جا سکے۔
یو این ایچ سی آر کے سربراہ کے مطابق یوکرین جنگ کی وجہ سے افغانستان کے لیے عطیات جمع کرنے میں دشواری کا سامنا ہے۔
انھوں نے بتایا کہ 2022 میں یو این ایچ سی آر نے افغانستان کے لیے 34 کروڑ ڈالرز کی امداد اکٹھی کرنے کی اپیل کی ہے لیکن اب تک صرف 10 کروڑ ڈالرز اکٹھے ہو سکے ہیں۔