اس منصوبے میں چین کو مصنوعی ذہانت کے میدان میں عالمی رہنما سمجھا جانا چاہیے۔ یہ وہ حقیقت ہے جس کا ذکر ایلان ماسک نے بھی کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ٹیکنالوجی اور آرٹیشل انٹیلیجنس میں چین کی مستقبل میں پیش رفت امریکی معیشت پر بہت بڑا اور خطرناک اثر ڈال سکتی ہے۔
چند سال پہلے تک، گوگل، فیس بک اور ایمیزون جیسی بڑی کمپنیوں کے ایگزیکٹوز چینی کمپنیوں کو کمتر سمجھتے تھے، لیکن آج لگتا ہے کہ سب کچھ بدل گیا ہے۔
سابق سیکرٹری دفاع مارک سپیر نے حال ہی میں آرٹیشل انٹیلیجنس پر قومی سلامتی کمیشن کی ایک کانفرنس کو بتایا: بہت سے ماہرین کا خیال ہے کہ مستقبل کی جنگ لامحالہ مصنوعی ذہانت پر مبنی ہوگی۔
انہوں نے کہا: آرٹیشل انٹیلیجنس میں پیش رفت آنے والی نسلوں کے لیے جنگوں کی شکل بدل سکتی ہے، اور جو ملک آرٹیشل انٹیلیجنس کو اچھی طرح سے استعمال کر سکتا ہے اسے آنے والے برسوں تک فتح مند تصور کیا جا سکتا ہے۔