مسئلہ فلسطین پر محمد بن سلمان کے موقف کے بارے میں ایک امریکی اخبار کا انکشاف
امریکی اخبار "ہل" نے غزہ کی پٹی کے خلاف اسرائیل کی جنگ میں سعودی عرب کے ولی عہد "محمد بن سلمان" کی شراکت اور اس کے فلسطینی باشندوں کے قتل عام کے حوالے سے اپنی ایک رپورٹ میں مسئلہ فلسطین کے حوالے سے سعودی ولی عہد کے موقف کو بے نقاب کیا ہے۔
Table of Contents (Show / Hide)
اس اخبار کے مطابق ستمبر کے وسط سے سعودی عرب اور اسرائیل کے درمیان تعلقات کو معمول پر لانے کا معاہدہ پہلے سے کہیں زیادہ قریب نظر آتا ہے۔
یہ اخبار لکھتا ہے: سعودی عرب کے موجودہ ولیعہد حکمران محمد بن سلمان نے اسرائیل کے ساتھ تعلقات معمول پر لانے کے بدلے میں امریکہ سے سیکیورٹی کوریج اور سیاسی امنیت مانگی تھی اور ایسا لگتا تھا کہ اگر ایسی کوریج فراہم کی جائے تو وہ اسرائیل کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے کے لیے تیار ہیں۔ مسئلہ فلسطین کے دو ریاستی حل پر کوئی توجہ دیے بغیر یا اس معمول پر لانے کے مذاکرات کو مسئلہ فلسطین کے ساتھ مشروط کیئے بغیر۔
دی ہل نے مزید لکھا: حماس کی قیادت میں فلسطینی گروہوں کے اسرائیل پر حملے نے اسرائیل کو فلسطینی گروہوں اور حماس کو تباہ کرنے کے لیے غزہ کی پٹی کے خلاف زمینی حملے کی دھمکی پر اکسایا ہے۔ یہ سب ایسے حالات میں رونما ہورہا ہے کہ اسرائیل اور سعودی عرب کے درمیان معمول پر لانے کا معاہدہ اسی تنازعہ کی وجہ سے صرف معطل ہو گیا ہے۔
اس اشاعت کے مطابق، مذکورہ بالا دونوں بیانات پر نظر ثانی کی جانی چاہیے۔ بہترین طریقہ یہ ہے کہ نارملائزیشن معاہدے کو تیز کیا جائے اور یہاں تک کہ اسے تیار اور بڑھایا جائے۔ اس اشاعت کے مطابق فلسطینی گروہوں اور حماس کے حملے کا بہترین جواب تعلقات کو معمول پر لانے کے لیے ایک معاہدے پر دستخط کرنا ہے۔
ہیل کے مطابق 7 اکتوبر اور طوفان الاقصیٰ آپریشن کے بعد اگر اسرائیل فلسطینی گروہوں اور حماس کے خلاف فوجی آپریشن شروع کرتا ہے خاص طور پر غزہ کی پٹی کے خلاف اگر بڑے پیمانے پر فوجی آپریشن شروع کرتا ہے تو یہ بہت بڑی غلطی ہو گی۔
اس رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے: ایسا لگتا ہے کہ حالیہ دنوں کی بمباری، وسعت اور مقدار کے لحاظ سے اس نکتے کی طرف اشارہ کرتی ہے کہ یہ زمینی کارروائیوں کا پیش خیمہ ہے، لیکن اسرائیل کو یاد رکھنا چاہیے کہ ان میں سے کوئی بھی اقدام فلسطینی گروہوں کے موقف اور حیثیت کو تبدیل نہیں کرتا۔
ہل کے مطابق اگر اسرائیل غزہ پر قبضہ کرنے اور حماس کو اقتدار سے بے دخل کرنے میں کامیاب ہو بھی جاتا ہے تو کم از کم مختصر مدت میں اسے انتفاضہ اور تنازعات اور ان کے گھروں کو تباہ کرنے والے فلسطینیوں کے غصے اور مسلسل بین الاقوامی دباؤ جیسے نتائج بھگتنا پڑیں گے۔
اس کے علاوہ اسرائیل کی معیشت کو بہت زیادہ نقصان پہنچے گا اور دنیا کی نظریں اور توجہ غزہ پر مرکوز رہیں گی۔ اور ایسی صورتحال میں تل ابیب کو مغربی کنارے اور حزب اللہ جیسے دیگر محاذوں کے فعال ہونے کے خطرے کو نظر انداز نہیں کرنا چاہیے۔ اس کے علاوہ یہ بھی ممکن ہے کہ مصر، اردن، متحدہ عرب امارات اور بحرین جیسے ممالک کے ساتھ اب تک کیے گئے ابراہیمی معاہدے بھی منسوخی کے خطرے سے دوچار ہوں۔
اسی وجہ سے ہل کا خیال ہے کہ اسرائیل کے لیے بہترین حکمت عملی یہ ہے کہ ایک طرف سعودی عرب کو مذاکرات کی میز پر بیٹھنے پر زور دیا جائے، اور غزہ جنگ کے خاتمے کے لیے بات چیت کی جائے اور دوسری طرف معمول کے معاہدے پر دستخط کیے جائیں۔ جو در حقیقت ایک تیر سے دو نشان ہوجائیں گے، سعودیہ سے تعلقات بھی نارملائز کردیئے جائیں گے اور حماس کے ساتھ تنازع بھی ختم ہوجائے گا جو خود اسرائیل کا بھلا بھی اسی میں ہے۔
اس امریکی اشاعت میں جو تاکید کی گئی ہے وہ یہ ہے کہ: ہمیں یہ حقیقت یاد رکھنی ہوگی کہ محمد بن سلمان کے لیے اسرائیل کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے کے لیے سب سے اہم شرط یہ تھی کہ سعودی عرب کو امریکہ کی طرف سے تحفظ فراہم کیا جائے۔ اور یہ شرط ہرگز شامل نہیں کہ مسئلہ فلسطین کا کوئی حل تلاش کیا جائے جس میں دو ریاستی حل بھی شامل ہو۔ اور یہی فلسطینی عسکری گروہوں کو نکال باہر کرنے کے لیے اور حماس کے موقف کو کمزور کرنے اور انہیں بے دخل کرنے کے لیے کافی ہے۔