اسرائیلی فوجیوں کے ذہنی امراض کے لئے خاص ٹریٹمنٹ ٹیموں کی تشکیل
اسرائیلی فوجیوں کے ذہنی اور نفسیاتی علاج کے لیے خصوصی ٹریٹمنٹ ٹیموں کی تشکیل دی گئی ہے جو خوف کے مارے اپنی پینٹ “گیلی” کرتے ہیں اور نیند کے لیے “منشیات” کا استعمال کرتے ہیں۔
Table of Contents (Show / Hide)
اسرائیلی فوجیوں کے ذہنی امراض اور نفسیاتی حالت اس قدر بگڑ چکی ہے کہ فوج نے حکومت کو مجبور کر دیا ہے کہ وہ ایسے فوجیوں کی حالت سے نمٹنے کے لیے خصوصی طبی ٹیمیں تشکیل دے جو جنگ کے خوف سے اپنی پینٹ “گیلی” کرتے ہیں اور سونے کے لیے منشیات کا استعمال کرتے ہیں۔
غزہ کی جنگ نے اسرائیل کے لیے نہ صرف معاشی، سیاسی اور عسکری مسائل پیدا کیے ہیں بلکہ ان مسائل کا ایک اہم پہلو سماجی مسائل ہیں جن میں اسرائیلی فوجیوں کے ذہنی اور نفسیاتی امراض بھی شامل ہیں، جن میں عام طور پر اسرائیلی عوام اور خاص طور پر فوجی مبتلا ہوچکے ہیں۔
یہ ایک ایسا موضوع ہے جس پر “اسرائیل” عبرانی مطبوعات جیسے “یدیعوت احرانوت”، “ہاریٹز”، “اسرائیل ایلیوم” اور دیگر جریدوں نے بات چیت کی ہے۔ ان میں سے ایک رپورٹ میں Yediot Aharonot اخبار لکھتا ہے کہ فوج نے حال ہی میں ایک شعبہ شروع کیا ہے جس کا کام اسرائیلی فوجیوں کے ذہنی مسائل میںمدد فراہم کرنا ہے جو غزہ کی جنگ میں حصہ لینے کی وجہ سے ذہنی اور نفسیاتی مسائل کا شکار ہیں۔
اسرائیلی فوج میں یہ شعبہ سوشل میڈیا پر ایک اسرائیلی فوجی کا کلپ شائع ہونے کے بعد بنایا گیا، جو غزہ کی جنگ میں حصہ لینے کے خوف سے “اپنی پینٹ گیلی” کر چکا تھا اور اپنی بیوی کو قتل کرنے والا تھا۔
Yediot Aharanot نے اسرائیلی فوج کے سوشل سروس ڈیپارٹمنٹ کے حوالے سے اپنی رپورٹ میں لکھا ہے کہ نفسیاتی ماہرین، ماہر نفسیات اور ذہنی امراض کے معالجین کی ٹیمیں اسرائیلی فوجیوں کے ذہنی امراض کے علاج کے لیے تشکیل دی جانی ہیں جنہیں ذہنی اور نفسیاتی مسائل کا سامنا ہے، خاص طور پر ان کے لئے جو ’خودکشی‘ کی جانب جانے کی خواہش رکھتے ہیں۔
اس اخبار نے نشاندہی کی ہے کہ غزہ کی جنگ بہت بھاری قیمت مانگتی ہے جو کہ اسرائیلی فوجیوں کے ذہنی اور نفسیاتی امراض کی تعداد کے لحاظ سے ناقابل برداشت ہے، خاص طور پر ان فوجیوں کے لیے جو اس جنگ میں زخمی ہوئے یا عمر بھر کے لیے معذور ہو گئے ہیں۔ خاص طور پر جب ہم دیکھتے ہیں کہ ذمہ دار حکام ان سے منہ موڑ چکے ہیں اور ان میں سے کوئی بھی ان سپاہیوں کے تئیں اپنی ذمہ داریاں پوری نہیں کرتا۔
Yediot Aharanot کے مطابق طبی خدمات اور نفسیاتی مشاورت فراہم کرنے کا نیا پروگرام اگلے سال فروری سے اپنا کام شروع کر دے گا اور اس میں نہ صرف غزہ کی جنگ میں حصہ لینے والے اور اس جنگ میں زخمی ہونے والے فوجیوں کو شامل کیا جائے گا بلکہ وہ فوجی بھی شامل ہوں گے جو غزہ کی جنگ میں زخمی ہوئے تھے۔ اس میں اسرائیل کی پچھلی جنگوں والے متاثرین بھی شامل ہیں جنہیں ان تمام سالوں میں اپنی حالت پر چھوڑ دیا گیا ہے اور وزارت جنگ اور وزارت صحت کی غفلت اور بے حسی کا سامنا ہے۔ اور ان کی تعداد 13500 سے زائد فوجیوں تک پہنچ گئی ہے۔
اسرائیلی فوجیوں کے ذہنی اور نفسیاتی امراض کی نوعیت
اس حوالے سے عبرانی زبان میں شائع ہونے والے ایک اور اخبار “Haaretz” نے بھی ایک رپورٹ میں غزہ جنگ میں حصہ لینے والے فوجیوں کی ذہنی اور نفسیاتی حالت پر بحث کی ہے اور اسرائیل کی Knesset (پارلیمنٹ) کو پیش کی گئی رپورٹ کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا ہے: طوفان الاقصی آپریشن کے آغاز اور غزہ میں جنگ کے شروع سے اب تک دو ہزار 816 سے زائد اسرائیلی فوجیوں کے ذہنی اور نفسیاتی مریض فوجی اسپتالوں کے نفسیاتی امراض کے شعبے میں داخل اور زیر علاج ہیں۔
اسرائیلی فوجی سربراہ کی رپورٹ
ہاریٹز نے اسرائیلی فوج کے سماجی اور طبی خدمات کے شعبے کی سربراہ Limor Luria کے حوالے سے بتایا کہ ان اسرائیلی فوجیوں کے ذہنی امراض کی شرح میں سے 18 فیصد (500 افراد) کو صدمے کے بعد شدید ذہنی اور نفسیاتی مسائل اور پریشانیوں کا سامنا ہے۔ اس اخبار کے مطابق ان میں سے 3% افراد خطرناک اور نازک ذہنی حالت میں ہیں۔
اسی طرح کی ایک رپورٹ میں عبرانی زبان کے اخبار “معاریو” نے اسرائیلی فوج بالخصوص غزہ جنگ میں حصہ لینے والی ریزرو فورسز کو درپیش شدید ذہنی، نفسیاتی اور جسمانی مسائل کے بارے میں لکھا ہے۔
لوریا نے اسرائیلی فوجیوں کے ذہنی امراض میں مبتلا ہونے والے زخمیوں کے بارے میں کنیسٹ کو رپورٹ بھی پیش کی۔ زخمیوں کی تعداد کا ذکر کیے بغیر ان کا کہنا تھا کہ یہ تعداد اس سے کہیں زیادہ ہے جس کا اعلان جنگ کی وزارت نے کیا ہے۔
وہ مزید کہتی ہیں: ان زخمیوں میں سے تقریباً نصف کے بازوؤں اور ٹانگوں میں زخم آئے ہیں اور اس سے ان فوجیوں میں ایک عضو کے کھونے کا امکان بڑھ جاتا ہے۔
لوریا کے ان بیانات پر جنگ میں زخمی ہونے والے فوجیوں کے لواحقین اور اہل خانہ کی جانب سے شدید ردعمل سامنے آیا۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ وزارت جنگ اور صحت کی وزارت ان زخمیوں اور ان کے اہل خانہ خصوصاً معذور افراد کی دیکھ بھال نہیں کرتی ہیں جنہیں اپنی زندگی جاری رکھنے کے لیے بہت سی مشکلات کا سامنا ہے۔
لوریا کے الفاظ پر تنقید کرتے ہوئے، زخمیوں کے خاندان والوں نے اس سے سچ بتانے کو کہا، کہ حالات اتنے اچھے نہیں ہیں جتنے وہ بتا رہے ہیں، اور زخمیوں اور جنگ سے متاثر ہونے والوں کو نظر انداز کیا جا رہا ہے۔ یہاں تک کہ ان کا علاج بھی مکمل اور صحیح طریقے سے نہیں ہوتا۔
ایک اسرائیلی فوجی جو ڈر کے مارے اپنی پینٹ گیلی کرتا ہے
گزشتہ چند دنوں کے دوران دو اسرائیلی فوجیوں کی ایک ویڈیو کلپ کے شائع ہونے سے کافی شور اور تنازعہ کھڑا ہوگیا، انہوں نے اسرائیل کی کنیسٹ (پارلیمنٹ) کے سامنے منعقدہ ایک پریس کانفرنس میں شرکت کی اور غزہ جنگ کے حوالے سے اپنے خوف اور آنکھوں دیکھے حال کے بارے میں بتایا۔
ان فوجیوں میں سے ایک “Avihai Livoi” کا کہنا ہے کہ “میں خوف کی وجہ سے راتوں کو اپنی پینٹ گیلی کرلیتا ہوں اور دن میں شراب کی پوری پوری بوتلیں پینے کے بعد ہی رات کو سو سکتا ہوں۔”
اس نے مزید کہا: مجھے جنگ کے بارے میں کچھ یاد نہیں ہے، مجھے ہر وقت یہی لگتا ہے کہ اب مجھ پر مارٹر اور آر پی جی گر جائیں گے۔ میں اپنے آپ کو ایک بلڈوزر کے اندر لڑتے ہوئے اور لاشوں کی بدبو کو سانس لیتے ہوئے دیکھ رہا ہوں، پھر میں اپنے ہاتھوں سے زخمیوں کو جمع کرنے کے لیے اٹھتا ہوں۔”
یہ اسرائیلی فوجی اپنے ذہنی اور نفسیاتی مسائل کے بارے میں بات جاری رکھتے ہوئے کہتا ہے: “میں پکّا شرابی بن گیا ہوں۔ میرے قرضے 800,000 شیکل سے تجاوز کر گئے ہیں۔ اہلکار اپنی ذمہ داریاں کیوں نہیں نبھاتے؟” مجھے اس کچرے کے ڈھیر سے نکالو جس میں تم نے مجھے ڈال دیا ہے۔”
بعض اخباری رپورٹس میں انکشاف کیا گیا ہے کہ اسرائیلی وزارت صحت، بہت سے معاملات میں اسرائیلی فوجیوں، خاص طور پر زخمی فوجیوں اور اسرائیلی فوجیوں کے ذہنی مسائل میں مبتلا افراد کو پرسکون کرنے کے لیے سوتے وقت نشہ آور ادویات اور منشیات کے انجیکشن لگاتی ہے۔