سعودی لیکس نیوز سائٹ کے مطابق اس تنظیم کے مطابق نئی سزائے موت کے خلاف جیلوں میں پھانسی کے منتظر مظاہرین کی تعداد 53 افراد تک پہنچ گئی ہے جن میں سے آٹھ کی عمریں 18 سال سے کم ہیں۔
ان افراد کو یہ سزا ایسی حالت میں سنائی گئی ہے جب حال ہی میں بین الاقوامی اداروں نے سعودی حکام سے کہا تھا کہ وہ "عبداللہ الحویطی" ایک ایسے شخص کو رہا کریں جس کی عمر 18 سال سے کم تھی جب اسے گرفتار کیا گیا تھا اور اب اسے سزائے موت سنائی گئی ہے۔
انسانی حقوق کی تنظیموں کے مطابق الحویطی کی عمر 14 سال تھی جب اسے گرفتار کیا گیا اور اسے قتل اور ڈکیتی کے جرم میں سزا سنائی گئی؛ جب کہ ان تنظیموں کے مطابق اس کے اعترافات تشدد کے تحت کیے گئے۔
اس حوالے سے سپریم کورٹ نے 2021 میں ان کی سزائے موت کو کالعدم قرار دے دیا تھا تاہم انہیں ایک بار پھر یہ سزا سنائی گئی اور اگر اپیل کورٹ سے اسے منظور کر لیا جاتا ہے تو سزائے موت پر عملدرآمد یقینی ہے۔
یاد رہے کہ عبداللہ الحویطی کے علاوہ بھی الحویطی قبائلی کے دیگر افراد شمال مغربی سعودی عرب میں اپنی زمینوں میں نیوم شہر کے پروجیکٹ کی تعمیر کے خلاف احتجاج کرنے پر جیل میں ہیں۔
یورپی سعودی ہیومن رائٹس آرگنائزیشن نے اپنے بیان میں اس بات پر زور دیا ہے کہ سعودی عرب میں بچوں کے خلاف سزائے موت پر عمل درآمد مکمل طور پر ختم ہونا چاہیے اور اس میں کوئی رعایت نہیں ہے۔