لبنان کی تنظیم حزب اللہ کے سکریٹری جنرل نے غزہ کے خلاف جنگ کے راستے اور فلسطین کے محاصرے میں عوام کے خلاف اسرائیلیوں کے جرائم اور نسل کشی کی وجہ کا مکمل تجزیہ کیا۔
انہوں نے کہا کہ امریکی اپنے فوجی بازو یعنی اسرائیلی، فلسطین کی کھڑکی اور غزہ کی جنگ کے ذریعے خطے میں خیمہ لگانا چاہتے ہیں اس لیے مزاحمت کی اولین ترجیح یہ ہونی چاہیے کہ خطے میں امریکی موجودگی کی شدت کو روکا جائے۔
انہوں نے وضاحت کی کہ یہ خیال رکھنا ضروری ہے کہ فلسطینی عوام کے خلاف جنگ کا انتظام امریکیوں کی ذمہ داری ہے، مزاحمت کے محور کی طرف سے سب سے زیادہ دباؤ بھی امریکیوں پر ڈالا جائے گا۔ جب کہ اسرائیل کے پاس جنگ کی طاقت نہیں ہے اور امریکیوں کے پاس خطے میں تمام محاذوں کو سنبھالنے کی صلاحیت نہیں ہے، لیکن ان کے ٹھکانوں کو زیادہ طاقت اور عزم کے ساتھ نشانہ بنایا جائے گا، مزاحمت کی اولین ترجیح امریکیوں کو خطے سے اور خاص طور پر عراق اور شام سے نکال باہر کرنا ہے۔
انہوں نے اپنی تقریر کے دوسرے حصے میں ایک اہم نکتہ یہ بیان کیا کہ عراق کی اسلامی مزاحمت اس اہم کام کی ذمہ دار ہو گی اور دوسری طرف یمنی فوج کی مدد سے فلسطینی علاقوں پر میزائلوں اور ڈرون حملوں کو تیز کرے گی اور انہیں دوسرے محاذوں میں داخل ہونے سے روکے گی۔ لہذا، آنے والے گھنٹوں اور دنوں میں،شاید عراق اور شام میں امریکی دہشت گرد فوج کے غیر قانونی اڈوں پر زمینی حملوں کے قریب, ہم میزائل اور ڈرون حملوں میں اضافہ دیکھیں گے۔ یہ مسئلہ امریکیوں کی برداشت سے باہر ہے اور وہ جانی نقصانات دے کر شام اور عراق کی سرزمین چھوڑنے پر مجبور ہو جائیں گے اور یہ خطے میں جنگ کا ایک اہم مرحلہ ہوگا۔
دوسری طرف، مختصر مدت میں، امریکی فریق اپنے اڈوں پر حملوں کو روکنے کے لیے اسرائیلیوں کو اپنے کنٹرول میں لینے پر مجبور ہو جائے گا تاکہ مزید فلسطینیوں کو قتل ہونے سے بچایا جا سکے۔
دیکھنا یہ ہے کہ سید حسن نصر اللہ کی ماہرانہ تقریر اور زبردست موقف نے امریکہ اور اسرائیل کا حساب کیسے بگاڑ دیا ہے۔
اسرائیلی حکومت کے رہنماؤں کے موقف پر نظر ڈالنے سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ اس بیان کے پیغام کو اچھی طرح سمجھ چکے ہیں اور وہ یہ بات بھی سمجھتے ہیں کہ یہ طوفان الاقصیٰ آپریشن ان کے خیال سے کہیں زیادہ سنگین ہے۔