طوفان الاقصیٰ، ذلت اور عزت نفس کی جنگ کا نام
مغربی کنارے اور غزہ کی پٹی کے فلسطینیوں کے ساتھ اسرائیل کا رویہ انتہائی افسوسناک، ذلت کا رویہ ہے۔ اس بنیاد پر یہ کہنا بہتر ہے کہ غزہ اسرائیل کا بنایا ہوا کیمپ ہے، اس لٹریچر کے برعکس جو غزہ کو دنیا کی سب سے بڑی جیل قرار دیتا ہے۔
Table of Contents (Show / Hide)
![طوفان الاقصیٰ، ذلت اور عزت نفس کی جنگ کا نام](https://cdn.gtn24.com/files/urdu/posts/2023-10/thumbs/_131278894_mediaitem131278728.webp)
اکتوبر 2023 میں، حماس کی قیادت میں فلسطینی گروہوں نے طوفان الاقصیٰ نامی ایک اقدام میں غزہ اور اسرائیل کے درمیان سرحدی دیوار کو عبور کیا۔ اسرائیل اور غزہ کی پٹی کے درمیان حفاظتی دیوار کو عبور کرنا اور فلسطینیوں کی طرف سے اسرائیلی بستیوں پر راکٹ حملے ایک ایسا واقعہ ہے جس کا موازنہ 11 ستمبر 2001 کے واقعے سے کیا جاتا ہے۔ ایک ایسا واقعہ جو 11 ستمبر سے ملتا جلتا تو نہیں ہے لیکن اس کی تعریف مشرق وسطیٰ میں 11 ستمبر کے نتائج اور اس کے بعد کے نتائج کے لحاظ سے کی جا سکتی ہے۔ ان ناقابل تردید نتائج کے باوجود کہ فلسطینی اور اسرائیلی گروہوں کے درمیان موجودہ جنگ کا مشرق وسطیٰ کے خطے پر اثر پڑے گا، قطع نظر اس میدان میں ہونے والی پیش رفت کے؛ جس چیز کو تلاش کرنے اور تجزیہ کرنے کی ضرورت ہے وہ محرک میکانزم ہیں جو فلسطینی گروہوں کو اس جذبے کی طرف لے گئے اور ان گروہوں کو دفاعی مرحلے سے حملہ کرنے کے مرحلے کی طرف جانے کے باعث بنے۔
فلسطینی گروہوں کا محرک
بین الاقوامی تعلقات کے مفکر Richard Ned Lebow کے ثقافتی نظریہ کے مطابق، اگر ہم کچھ اداکاروں کے رویے کی وضاحت میں عقلیت کے اصولوں کو استعمال کریں گے، تو ہم ان اداکاروں کے رویے کو غیر معقول قرار دیں گے اور ہمیں ان کے رویے کی کوئی معقول وجہ اور سنجیدگی نظر نہیں آئے گی۔ ان اداکاروں کے طرز عمل کی حقیقت پسندانہ تفہیم کے مطابق، نیڈ لیبو کا خیال ہے کہ عمل کے نتیجے میں ہونے والے نفع و نقصان کی معقولیت اور حساب کے علاوہ، بین الاقوامی اور علاقائی نظام کے بعض حکمرانوں کے رویے کی وضاحت روح اور اس کی بنیاد پر کی جانی چاہیے۔ نیڈ لیبو کے نقطہ نظر سے، خود اعتمادی کی تلاش اور عزت کے لیے جدوجہد ایک اداکار کو تمام توہینوں کا بدلہ لینے کی ترغیب کے ساتھ تمام غفلتوں کے خلاف پرتشدد ردعمل کی طرف راغب کرتی ہے۔
خود اعتمادی کی ضرورت کو پورا کرنے کی ضرورت کی بنیاد پر، ایک اداکار اس طرح برتاؤ کرتا ہے کہ اس کا طرز عمل اس کی خیالی خود اعتمادی کو بحال کرتا ہے، اور اس طرح وہ موجودہ سماجی نظام سے متصادم ہوجاتا ہے، ایک تصادم جس کا مقصد عزت حاصل کرنا ہوتا ہے، جبکہ اس عزت کو بقا سے زیادہ اہم سمجھا جاتا ہے۔
- سماجی نظم، ذلت اور انتقام
مذکورہ مواد کی بنیاد پر اسرائیل کے ساتھ محاذ آرائی میں فلسطینی گروہوں کے رویے کو سماجی نظام، تذلیل اور انتقام کے موضوعات کی ذیلی شاخوں میں تلاش کیا جانا چاہیے۔
- سماجی نظام
مشرق وسطیٰ کے خطے میں کئی سالوں کی پیش رفت اور اسرائیل کی جانب سے ابراہیمی معاہدے کی بنیاد پر عرب ممالک کے ساتھ امن قائم کرنے کی کوشش دراصل فلسطینیوں کی موجودگی کے بغیر مسئلہ فلسطین کو حل کرنے اور اسرائیل کو مستحکم کرنے، اس حکومت کو تسلیم کرنے اور اسے قانونی حیثیت دینے کی کوشش تھی۔ خطہ اسی بنیاد پر حماس اور اسلامی جہاد جیسے فلسطینی گروہوں نے خطے میں موجودہ پیش رفت کو عربوں کے فلسطین کی آزادی جے خواب کو فراموش کرنے کی سمت میں بیان کیا اور کہا کہ عرب ممالک کے لیڈروں نے فلسطینی خوابوں پر موجودہ حقیقت کو ترجیح دی، اور فلسطینی گروہ عرب اور اسرائیلیوں کے مذاکرات میں اب مرکزی کردار نہیں رکھتے۔
- ذلت
مغربی کنارے اور غزہ کی پٹی کے فلسطینیوں کے ساتھ اسرائیل کا رویہ انتہائی افسوسناک، ذلت اور خاص طور پر غزہ کے رہائشیوں کے ساتھ کیمپ اور اس کے گارڈ کا رویہ ہے۔ اس بنیاد پر یہ کہنا بہتر ہے کہ غزہ اسرائیل کا بنایا ہوا کیمپ ہے، اس خیال کے برعکس جو غزہ کو دنیا کی سب سے بڑی جیل قرار دیتا ہے۔ آشوٹز جیسا کیمپ (نازی کیمپوں میں قیدی یہودی جن میں زیادہ تر عورتیں اور بچے تھے) جہاں لوگ انسانی حقوق سے محروم تھے، اس طرح کہ غزہ کے باشندوں کو پھانسی دینے کی صورت میں کوئی بھی سلوک جائز اور اسرائیلیوں کے لیے کسی خاص نتائج کے بغیر ہے۔ اس کی وجہ یہی ہے کہ اسرائیل کے نقطہ نظر سے غزہ کے باشندوں کو انسانی حقوق حاصل نہیں ہیں اور جنگ میں ان کے ساتھ انسانی قوانین کی ضرورت نہیں ہے۔
- انتقام
اس کے باوجود کہ فلسطینی خاص کر حماس اور اسلامی جہاد جیسے فلسطینی گروہ اپنے آپ کو فلسطین کی آزادی کے علمبردار سمجھتے ہیں، اس سے قبل تک عالمی برادری کی طرف سے ذلیل اور نظر انداز کیے جانے کی وجہ سے، انہوں نے نفع و نقصان کے حساب سے بالاتر ہو کر اسرائیل کے خلاف جنگ اور اس میں اپنی بقا کو بھی خطرے میں ڈال دیا ہے صرف اور صرف اپنی کھوئی ہوئی شان و عظمت حاصل کرنا شروع کر دیا ہے۔
درحقیقت انتقام، فلسطین کی آزادی کے علمبرداروں کے طور پر خود کی تعریف اور اس کی نظر اندازی، تذلیل اور عالمی نظام کی ترتیب، جو کہ ان لوگوں کی شناخت کی تعریف سے متصادم ہے، نے فلسطینی گروہوں کو یہاں تک کہ جنگ کی طرف جانے پر مجبور کر دیا ہے۔ لہٰذا فلسطینی گروہوں کی طرف سے طوفان الاقصیٰ نامی آپریشن نے نہ صرف فلسطینیوں اور اسرائیلیوں کے درمیان نوآبادیاتی تنازعہ میں قائم کردہ ظالمانہ قوانین کو توڑ کر رکھ دیا بلکہ اسرائیلی فوج کو نیچا دکھانے کے لیے فلسطینی گروہوں کی بڑھتی ہوئی صلاحیتوں کو دکھانے کی ایک کامیاب کوشش بھی تھی۔
نتیجہ
بین الاقوامی نظام کا ماحول بین الاقوامی قوتوں کے درمیان کش مکش اور پراکسی وارز کی بنیاد پر تیار ہو رہا ہے۔ مشرق وسطیٰ کا خطہ دنیا کے دیگر خطوں کے مقابلے ترقیوں میں زیادہ حصہ دار ہے۔
فلسطینی گروہوں کی حالیہ کارروائی ایک کشیدہ ماحول میں فلسطینیوں اور اسرائیلیوں کے درمیان تصادم کی پیشین گوئی تھی جو اسرائیل کے برسوں سے کیئے جانے والے ظلم و بربریت کا جواب تھا۔