غزہ جنگ کے باوجود سعودیہ اسرائیل سے دوستی کی طرف مائل
اسرائیل اور سعودی عرب کے درمیان مذاکرات کو معمول پر لانے کے عمل میں ایک بہت اہم نکتہ مسئلہ فلسطین اور فلسطینیوں کا تھا، جو سعودی حکام کے دعووں کے برعکس ان کی شرائط میں اہمیت کا حامل نہیں تھا اور نہ ہی اس کے اہم موضوعات میں شامل تھا۔
Table of Contents (Show / Hide)
اسلام آباد سنٹر فار سٹریٹیجک سٹڈیز (ISSI) کے ایک پاکستانی محقق "نادر علی" کا خیال ہے کہ اسرائیل کے ساتھ عرب حکومت کے حالیہ امن معاہدوں جنہیں "ابراہیمی معاہدے" کے نام سے جانا جاتا ہے کے خاتمے کے بارے میں خدشات، غزہ میں اسرائیل کی جنگ کے باوجود یقینی طور پر تباہی اور بربادی کی جانب نہیں جا سکتے۔
اس پاکستانی محقق نے "ماڈرن ڈپلومیسی" میگزین میں ایک تجزیے میں لکھا: "غزہ جنگ کے باوجود اور فلسطینیوں کے خلاف غزہ کی پٹی میں ہلاکتوں کے باوجود سعودی عرب اور اسرائیل کے درمیان تعلقات معمول پر آنے کے امکانات اور سعودی عرب کے اسلامی دنیا کے لیڈر ہونے کے دعوے اب بھی پہلے کی طرح برقرار ہیں۔"
حقیقت یہ ہے کہ اگر ہم مشاہدہ کریں کہ غزہ کی پٹی پر اسرائیل کی فوجی جارحیت کے دوران سعودی عرب کے ولی عہد "محمد بن سلمان"، اور بعض دیگر سعودی حکام نے جنگ کو فوری طور پر ختم کرنے اور امن کے قیام کا مطالبہ کیا تھا۔ یہ فلسطینی عوام کی خاطر نہیں، جن کے اسرائیل کے ہاتھوں روزانہ قتل و غارت گری ہوتی ہے، بلکہ ریاض کے تل ابیب کے ساتھ معمول پر آنے کے عمل میں رکاوٹ پیدا ہونے کی وجہ سے تھا۔
نادر علی کے مطابق سعودی عرب کو اسرائیل کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے کی کوششوں اور اقدامات سے جو فوائد حاصل ہوتے ہیں وہ بہت زیادہ ہیں اور اب غزہ کی جنگ نے ان میں سے بہت سے فوائد کو ختم کر دیا ہے۔
یہ مسئلہ ایک بار پھر اس حقیقت پر زور دیتا ہے کہ فلسطین اور فلسطینی کاز کے لیے سعودی عرب کے اعلیٰ حکام کی حمایت عالم اسلام اور عرب دنیا کے عرب اور اسلامی تشخص کی وجہ سے نہیں ہے، بلکہ سیاسی اور تزویراتی تحفظات کی بنیاد پر ہے، جس کے ساتھ حال ہی میں اقتصادی تحفظات بھی شامل کیئے گئے ہیں۔
اس لیے آج ہم جس چیز کا مشاہدہ کر رہے ہیں وہ سعودی حکام کی طرف سے محض غزہ کی پٹی میں جنگ بندی کرنے کی چند مذمتیں اور درخواستیں ہیں، حالانکہ اس کی ایک وجہ حرمین شریفین پر سعودیوں کی حاکمیت ہے، جس کی وجہ سے وہ اس پر مجبور ہیں کہ فلسطین کی حمایت کرنے کا ڈرامہ کر رہے ہیں تا کہ وہ عالم اسلام میں اپنے آپ کو محفوظ رکھ سکیں، ورنہ انہیں پوری دنیا کے مسلمانوں کی جانب سے شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑے گا، لیکن حقیقت یہ ہے کہ ان درخواستوں کے پیچھے سعودی عرب کے بہت سے اقتصادی مفادات پوشیدہ ہیں۔
مصنف کے مطابق، سعودی معیشت کو مزید بہتر بنانے کی کوشش کرنے والے محمد بن سلمان کے عملی نقطہ نظر سے کم از کم، خطے کا استحکام اور مضبوطی ان کے منصوبوں کو جاری رکھنے اور انہیں عملی جامہ پہنانے میں مضمر ہے۔
درحقیقت بن سلمان فلسطین کے بے دفاع لوگوں کے قتل عام کو روکنے کے بارے میں سوچنے سے زیادہ اپنے معاشی مفادات اور اہداف کو حاصل کرنے کے بارے میں سوچ رہے ہیں، ایک ایسی معیشت جسے مسائل کے پہاڑ کا سامنا ہے اور جس کی وقتاً فوقتاً ہی بات سامنے آتی ہیں لیکن یہ صرف اس پہاڑ کی نوک ہے۔
اس مصنف کے مطابق سعودی عرب، اسرائیل اور دیگر عرب حکومتیں اچھی طرح جانتی ہیں کہ صرف علاقائی امن و استحکام کے قیام سے ہی وہ مشرق وسطیٰ میں اپنے مقاصد اور اقتصادی مفادات حاصل کر سکتے ہیں اور غزہ کی پٹی میں جاری جنگ، یہ سب کچھ خطرے میں ڈال رہا ہے۔ اور اسرائیل اور سعودی عرب کے مفادات کے لیے اپنے تزویراتی نقطہ نظر سے امن اور سلامتی کے قیام کی اہمیت کو ظاہر کرتا ہے۔
یہ پاکستانی تجزیہ کار اس بات پر زور دیتا ہے: "ان دو حکومتوں کے مشترکہ مفادات اور اہداف، ان مقاصد اور مطالبات سے نمٹنے کے لیے عرب اور اسلامی ممالک کے درمیان تعاون اور ہم آہنگی کی اہمیت کو پہلے سے کہیں زیادہ ظاہر کرتے ہیں۔
ساتھ ہی یہ مشرق وسطیٰ کے جغرافیائی سیاسی خطے میں جاری اس تنازع کو ختم کرنے کے لیے دو فلسطینی اسرائیلی ریاستوں کے حل تک پہنچنے کی اہمیت پر زور دیتا ہے۔
طوفان الاقصیٰ آپریشن کے آغاز سے تین ہفتے قبل محمد بن سلمان نے فاکس نیوز کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا تھا کہ سعودی عرب اور اسرائیل ہر روز تعلقات کو معمول پر لانے کے قریب تر ہو رہے ہیں۔
تل ابیب کے ساتھ اپنے تعلقات کو معمول پر لانے کے بدلے، ریاض نے اپنے لیے امریکی تحفظ کی ضمانتوں اور اپنے جوہری پروگرام کی ترقی کے لیے تعاون کا مطالبہ کیا تھا۔ وہ دو شرائط جو دنیا کے بہت سے سیاسی حلقوں کے مطابق امن معاہدے پر دستخط کے لیے ہونے والے مذاکرات میں رکاوٹ بنی رہیں گی۔
اسرائیل اور سعودی عرب کے درمیان مذاکرات کو معمول پر لانے کے عمل میں ایک بہت اہم نکتہ مسئلہ فلسطین اور فلسطینیوں کا تھا، جو سعودی حکام کے دعووں کے برعکس ان کی شرائط میں اہمیت کا حامل نہیں تھا اور نہ ہی اس کے اہم موضوعات میں شامل تھا۔