سچا وعدہ کرنے والا واشنگٹن یا تل ابیب میں نہیں، تہران میں بیٹھا ہے
اے پی کے مطابق اس سے اشارہ ملتا ہے کہ اسرائیل کا کوئی بھی اقدام محدود پیمانے پر ہوگا، جیسے خطے بھر میں ایرانی حمایت یافتہ گروہوں پر حملے یا ایران پر سائبر حملہ وغیرہ۔
Table of Contents (Show / Hide)
13 اپریل کی شب ایران نے اسرائیل پر تقریباً 300 ڈرون اور کروز میزائل فائر کیے تھے، جسے آپریشن ’ٹرو پرامس‘ یعنی وعدہ صادق کا نام دیا گیا ہے۔
حملے میں اسرائیلی دفاعی تنصیبات اور فوجی ٹھکانوں کو نشانہ بنایا گیا تھا۔
ایرانی میڈیا کے مطابق یہ حملہ یکم اپریل کو اسرائیل کے دمشق میں ایرانی قونصل خانے پر حملے کے جواب میں تھا جس میں ایرانی پاسداران انقلاب کے کمانڈر سمیت 12 افراد شہید ہوگئے تھے۔
ایران نے 13 اور 14اپریل کی درمیانی رات اسرائیل پر حملہ کر کے یکم اپریل کو دمشق میں اس کے سفارت خانہ پر ہوئے اسرائیلی حملہ کا بدلہ لے لیا۔
ایران کے اس حملہ کے بعد اسرائیلی کابینہ کا اجلاس ہوا جس میں اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو پر دباؤ ڈالا گیا کہ وہ ایران کے اس جوابی حملہ کا جواب دیں۔ اگر ایسا ہوتا ہے تو جنگ پھیلنے کے امکانات کو رد نہیں کیا جا سکتا بلکہ پورا خطہ جنگ کی لپیٹ میں آ سکتا ہے اور اسی لئے امریکن صدر جو بائیڈن نے اسرائیلی وزیر اعظم کو ایسے کسی اقدام سے سختی سے منع کیا ہے جبکہ ایران نے اسرائیل کے اس بیان کے بعد کہا ہے کہ اب صبرکا زمانہ گذر گیا اسرائیل کے اس طرح کے کسی بھی اقدام کا بھرپور جواب دیا جائے گا۔ اس کے علاوہ ایران نے اسرائیل کا ایک بحری جہاز بھی اپنے قبضہ میں لے لیا۔
امریکی میڈیا رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اسرائیل کو ایران سے اتنے بڑے پیمانے پر ردعمل کی توقع نہ تھی، امریکا اور اسرائیلی حکام کا خیال تھا ایران کا ردعمل محدود ہو گا۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ اسرائیل نے ایرانی ہدف پر حملے سے چند لمحے قبل واشنگٹن کو ایران کی جانب سے کم درجے کی اطلاع دی تھی جبکہ امریکی اہلکاروں نے امریکا کے مشیر برائے قومی سلامتی جیک سلیوان کو حملے کے سنگین نتائج کے خدشے سے فوری آگاہ کیا تھا۔
امریکی میڈیا رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ایرانی اہداف پر اسرائیلی حملے کے بعد عوامی سطح پر امریکا نے اسرائیل کی حمایت کی جبکہ نجی طور پر امریکا نے مشورہ کیے بغیر شام میں ایرانی قونصل خانے پر حملہ کرنے پر اسرائیل پر غصے کا اظہار کیا۔
رپورٹ کے مطابق اسرائیل کے حملے کے بعد ایران نے عوامی اور سفارتی طور پر جوابی کارروائی کا عزم کیا، ایران نے نجی طور پر پیغام بھیجا کہ وہ اسرائیل کے ساتھ واضح جنگ نہیں چاہتا، ایران نے امریکا کو پیغام پہنچانے کیلئے عمان، ترکیہ اور سوئٹزرلینڈ کو ثالث بنایا۔
اسرائیل مسلسل ایران کے حملے کا جواب دینے کا عزم دہرا رہا ہے۔ ایسے میں مبصرین کا کہنا ہے کہ دونوں ملکوں کی جانب سے دھمکیوں کے بعد ایران اور اسرائیل کے مدِبقابل آنے کے امکانات بڑھ گئے ہیں۔
اسرائیلی حکام نے اپنے لائحہ عمل کا اب تک باضابطہ طور پر اعلان نہیں کیا ہے۔ مستقبل کے لائحہ عمل سے متعلق اسرائیل کی جنگی کابینہ نے گزشتہ دو روز کے دوران سوچ بچار کی ہے اور بدھ کو ایک مرتبہ پھر کابینہ ارکان مل بیٹھیں گے۔
دو امریکی حکام کا کہنا ہے کہ اسرائیل نے ابھی تک امریکہ کو مطلع نہیں کیا کہ وہ اگلا قدم کیا اٹھائے گا۔
ان حکام نے خبر رساں ادارے 'ایسوسی ایٹڈ پریس' کو نام نہ بتانے کی شرط پر سفارتی گفتگو کے بارے میں بتایا کہ، اسرائیل نے اشارہ دیا ہے کہ وہ اگلا قدم اس حقیقت کو مدنظر رکھتے ہوئے اٹھائے گا کہ اس سے خطے میں تنازع بڑھنے نہ پائے۔
اسرائیل کی دھمکیاں کیوں گیدڑ بھپکیاں ہیں؟
کیونکہ یہ وہی ہیں جو لبنان کو 6 ماہ کے لیے پتھر کے زمانے میں واپس لانا چاہتے تھے، یہ وہی ہیں جو باب المندب سے سمندری راستہ کھولنا چاہتے تھے، یہ وہی ہیں جو 6 ماہ سے حماس کو تباہ کرنا چاہتے ہیں۔
نیتن یاہو یا حکومت میں کسی اور کے الفاظ اور دھمکیوں کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔
کیونکہ وہ بائیڈن کی اجازت کے بغیر رفح میں داخل بھی نہیں ہوسکتے، اسی لیے خطے میں کوئی بھی تنازعہ ایران اور امریکہ کے درمیان ہوگا اور اسرائیلی حکومت صرف امریکہ کی پراکسی ہوسکتی ہے۔
اے پی کے مطابق اس سے اشارہ ملتا ہے کہ اسرائیل کا کوئی بھی اقدام محدود پیمانے پر ہوگا، جیسے خطے بھر میں ایرانی حمایت یافتہ گروہوں پر حملے یا ایران پر سائبر حملہ وغیرہ۔
لہذا جو جو شخص سچا وعدہ (وعدہ صادق) کرتا ہے وہ شاید تہران میں بیٹھا ہے، تل ابیب یا واشنگٹن میں نہیں۔