لیکن جب کہ جنگ اپنے دوسرے مہینے میں داخل ہو چکی ہے اور اسرائیل کے پاس کم سے کم فتح حاصل کرنے کے لیے بھی کوئی واضح امکان نہیں ہے، وائٹ ہاؤس سے یہ آوازیں سنائی دے رہی ہیں کہ جنگ بندی کے لیے انسانی بنیادوں پر قیدیوں کا تبادلے کے عوض صرف کچھ دنوں کے لیے تنازعہ کو روکنا چاہیے۔
امریکہ اور اسرائیل کا خیال تھا کہ اگر وہ دس ہزار لوگوں کا قتل عام کر کے غزہ کو کھنڈرات میں تبدیل کر دیں گے تو مزاحمتی فورسز خوفزدہ ہوکر جنگ کے خاتمے کا مطالبہ کرے گی اور اس مقصد کے لیے اسرائیلی فوجیوں کو رہا کر دے گی، لیکن جوں جوں وقت گزرتا گیا اور دباؤ بڑھتا گیا تو بمباری بھاری ہوتی گئی۔ اور غزہ کے لوگوں کا قتل عام مزید وسیع ہو گیا، اسرائیلی فوجیوں کی رہائی کی کوئی خبر نہیں تھی۔ اب وائٹ ہاؤس کے حکام اس جنگ کے اصل کمانڈر کی حیثیت سے، اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ اسیروں یا بقول ان کے یرغمالیوں کی رہائی کا واحد طریقہ جنگ کو روکنا اور اس کے بعد بڑے پیمانے پر قیدیوں کا تبادلہ کرنا ہے۔
مزاحمتی فورسز ان تمام 7000 سے زائد فلسطینی شہریوں کی رہائی کا مطالبہ کرتی ہے جنہیں اسرائیلی حکومت نے گزشتہ برسوں کے دوران مختلف وجوہات کی بناء پر جیلوں میں بند کردیا ہے اور ان میں سے بعض کو طویل سزائیں دی گئی ہیں۔ اگرچہ اس حکومت کی زندگی کا دورانیہ طویل مدتی سزاؤں پر عمل درآمد کے لیے کافی نہیں ہوگی، تاہم مزاحمتی تحریک فلسطینی بچوں کو اسرائیلی جیلوں سے آزاد کرنے پر اصرار کرتی ہے۔ لیکن قیدیوں کی رہائی اور تبادلے بچوں کو مارنے والی حکومت کی ایک سنگین اور ہمہ گیر شکست ہو گی اور اسی وجہ سے غزہ میں کم از کم 80 قیدیوں کی ہلاکت کے باوجود اس حکومت نے اس تبادلے پر آمادگی ظاہر نہیں کی، کیونکہ یہ تبادلہ کچھ بھی نہیں بلکہ نیتن یاہو کے لئے شکست کے اوپر شکست ہے۔
غزہ میں مزاحمت کے کمانڈروں نے بھی اس بات کو سمجھا ہے اور اس بات پر زور دیا ہے کہ کوئی غیر مشروط آزادی نہیں ہوگی، اور غیر ملکی اسیروں کے بارے میں بھی اگر یہ ثابت ہو جائے کہ انہوں نے اسرائیلی فوج یا پولیس میں خدمات انجام نہیں دیں تو اسی صورت میں ادویات، خوراک اور ایندھن کے بدلے میں انہیں آزادی مل سکتی ہے۔ اور اسرائیلی فوجیوں کو یا تو اسیر ہوکر سڑنا ہوگا یا فلسطینی قیدیوں سے ان کا تبادلہ ہوگا۔