یاد رہے کہ امریکی انتظامیہ نے گزشتہ سال اگست میں افغانستان کے مرکزی بینک کے اثاثوں کو بلاک کر دیا تھا جسے دا افغان بینک یا ڈی اے بی کہا جاتا ہے۔ اس اقدام کا مقصد ملک کے نئے طالبان حکمرانوں کو، جنہوں نے 15 اگست کو کابل پر قبضہ کیا، کو فنڈز تک رسائی سے روکنا تھا۔
صدر بائیڈن نے کہا کہ فنڈز جاری کرنے کا حکم "افغانستان میں انسانی اور معاشی بحران سے نمٹنے کے لیے ہمارے جاری کام کا حصہ ہے" اور یہ رقم "افغان عوام کے فائدے کے لیے استعمال کی جائے گی"۔
ایگزیکٹو آرڈر امریکی مالیاتی اداروں کے ذریعہ ریاستہائے متحدہ میں رکھی گئی DAB کی جائیداد کو روکتا ہے اور ان اداروں سے اس پراپرٹی کو فیڈرل ریزرو بینک آف نیویارک میں کنسولیڈیٹڈ اکاؤنٹ میں منتقل کرنے کا مطالبہ کرتا ہے۔
امریکی انتظامیہ افغانستان کو ان اثاثوں میں سے 3.5 بلین ڈالر تک رسائی کی سہولت فراہم کرے گی۔
11 ستمبر 2001 کے حملوں میں ہلاک ہونے والوں کے لواحقین سمیت بہت سے امریکی متاثرین نے طالبان کے خلاف دعوے کیے ہیں اور وہ وفاقی عدالت میں ڈی اے بی کے اثاثوں کی پیروی کر رہے ہیں۔ عدالت ان رٹوں پر حتمی فیصلہ کرے گی۔
واضح رہے کہ گزشتہ اگست کے واقعات سے پہلے بھی، افغانستان کی معیشت تباہی کے دہانے پر تھی اور افغانستان میں غربت کی شرح 50 فیصد سے بہت تیزی سے بڑھ رہی تھی۔ تاہم اس غریب ملک کے اثاثے منجمد ہونے سے مسائل بڑھ گئے یہاں تک کہ عظیم انسانی بحران کا خدشہ بڑھا۔ ان حالات میں امریکہ کا صرف 3.5 بلین افغانوں کو واپس دینا، انسانی نہیں بلکہ ایک سیاسی اقدام لگ رہا ہے، تا کہ عالمی برادری کے سامنے اپنی بگڑتی ہوئی تصویر سنوار سکے۔